Ustani Ji

Ray Khan

Visitor

0

0%

Status

Offline

Posts

6

Likes

5

Rep

0

Bits

10

4

Months of Service

LEVEL 1
75 XP
I want to start this story named as "Ustani Ji"..I am not the original writer of this story and All credit goes to the original writer of this story.

جیُالکھاری: شاہ جیہیلو دوستو کیسے ہو آپ ؟؟ ۔۔ کہانی لکھنے سے قبل میں آپ سے ایکبڑے مزے کی بات شئیر کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کراۓ کے گھر میں رہنےکے بھی اپنے ہی مزے ہیں ۔۔۔ وہ یوں کہ ایک گھر سے جب آپ دوسرے گھر میںشفٹ ہوتے ہیں تو نئئ جگہ پر نئے لوگ ملتے ہیں نئئ دوستیاں بنتی ہیں ۔۔۔۔ اور ۔۔نئئ۔۔۔۔ نئئ ۔۔۔۔۔ )امید ہے کہ آپ لوگ میری بات سمجھ گئے ہوں گے ( دوستو جیسا کہآپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی ساری زند گی ان پھدیوں کے پیچھے ہی برباد کیہے اور آپ لوگ یہ بات بھی خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مجھے میچورلیڈیز بڑی پسند ہیں بلکہ میں ان پر مرتا ہوں ۔۔۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میچور لیڈیزسیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتیں اور کھل کر مزہ لیتی اور کھل کر مزہدیتی ہیں ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ میری زندگی میں زیادہ تر آنٹیاں ہیآئیں ہیں ۔۔۔ بلکہ بائ چانس اوائیل عمر سے ہی میرا پاال ان عورتوں سے پڑا تھا ۔۔۔یعنی کہ میری سیکس الئف کی شروعات ہی اس قسم کی عورتوں کو چودنے سے ہوئتھی ۔ اور اُس عمر میں یہ عورتیں مجھے اس قدر زیادہ تعداد میں ملیں کہ ۔۔۔۔ پھرسیکس کے لیے میچور عورتیں ہی میرا ٹیسٹ بن گئ ہیں ۔۔۔ آج جو سٹوری میں آپ کوسنانے جا رہا ہوں یہ بھی انہی دنوں کی ہے --- جب آتش تو ابھی لڑکپن کیسرحدیں عبور کر رہا تھا لیکن آتش کا لن اس سے پہلے ہی یہ ساری سرحدیں عبورکر کے فُل جوان ہو چکا تھا – اور پیار دو پیار لو کا کھیل شروع کر چکا تھا ۔ دوستویہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہمارے مالک مکان نے سال سے قبل ہی مکان کاہمیں وہ مکان خالی کرنا پڑا ۔۔ اور بڑےکرایہ بڑھا دیا تھا اور اتنا بڑھایا ۔۔۔ کہ مجبوراًہی شارٹ نوٹس پر ہمیں ایک نیا گھر کراۓ پر لینا پڑا اور ہم پہلی سے پہلے وہاں شفٹہو گۓ ۔۔ کچھ دن تو مکان کی سیٹنگ میں لگ گئے ۔۔ جب سارا کام سیٹ ہو گیا تو پھر ایکدن میں اپنے پرانے محلے میں دوستوں سے ملنے گیا )جو کہ زیادہ دُور نہ تھا ( محلےمیں داخل ہوتے ہی مجھے انجم مل گیا جو کہ میری طرح ہی ایک ٹھرکی روح تھاچانچہ اس نے باتوں باتوں میں مجھ ے بتایا کہ اس کے پاس "وہی وہانوی" کا مشہورناول " استانی جی " آیا ہے جو بڑا زبردست اور سیکس سے بھر پور ہے اور وہ اس کوپڑھ کر اب تک تین چار دفعہ ُمٹھ مار چکا ہے اس کی یہ بات سن کر میں نے بھیاس سے ناول پڑھنے کے لیئے مانگا تو اس نے پہلے تو صاف انکار کر دیا ۔ لیکنپھر کافی منت ترلوں کے بعد وہ بمشکل اس بات پر راضی ہوا کہ میں اسے شام تکہر حال واپس کر دوں گا کیونکہ وہ جس الئیبرئیری والے سے الیا تھا اسے میں اچھیطرح جانتا تھا کہ وہ بڑا سخت اور حرامی بندہ تھا کیونکہ جب بھی ہم اس کو ناولستانی جیُالکھاری: شاہ جیواپس کرنے جایا کرتے تھے تو وہ ناول کا ایک ایک صفحہ چیک کیا کرتا تھا اور اگرکسی نے ناول کے بیچ میں سے کوئ صفحہ پھاڑا ہوتا تھا تو وہ ہم سے پوری کتابکے پیسے چارج کرتا تھا اور بے عزتی الگ سے کرتا تھا اور ہم اس سے اس لئےبھی ڈرتے تھے کہ اس کا بھائ تھانے کوتوالی میں حوالدار لگا ہوا تھا جس کی وہ ہم کو ہر وقتتڑیاں لگاتا رہتا تھا ہاں تو انجم نے مجھے بتایا کہ یار چونکہ یہ ناول اس الیئبریری میںابھی آیا ہے اس لئے اس حرامی نے کہا تھا کہ اسے ہر حال میں آج شام تک واپس کرنا ہوگا پھر کہنے لگا اور یار تُو تو جانتا ہی ہے کہ وہ اس معا ملے میں کس قدر مادر چودواقعہ ہوا ہے- اب میرے ساتھ پرابلم یہ تھی کہ میں نے شام کو ہر صورت ٹیوشن پڑھنے جانا ہوتاتھا اور بات ایسی تھی کہ میں ٹیوشن سے چھٹی کرنے کا سوچ بھی سکتا تھا کیونکہ میڈمزیبا عرف استانی جی ) جی ہاں محلے میں وہ اسی نام سے مشہور تھیں ( چھٹی کرنےپر بڑا مارتی تھی ویسے بھی وہ اتنی سخت تھیں کہ میں تو کیا پورے محلے کے لڑکے ،لڑکیاں جوبھی ان سے ٹیوشن پڑھتے تھے اور جو نہیں بھی پڑھتے تھے وہ سب نہصرف ان سے ڈرتے تھے بلکہ ہم جیسوں کی تو ان کا نام سے ہی جان جایا کرتیتھی چھوٹوں کے ساتھ ساتھ محلے کے بڑے بھی استانی جی کا بڑا احترام کرتے تھے اوران کی کوئ بات نہ ٹالتے تھے ۔ اس لئے محلے کا کوئ بھی لڑکا میڈم زیبا کی ٹیوشن سےچاہ کر بھی چھٹی نہ کر سکتا تھا ۔ دوستو اب میں آپ کو میڈم زیبا کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں جس وقت کی یہ بات اسوقت وہ کوئ 54 45/ کے پیٹے میں ہوں گی – ان کا جسم تھوڑا موٹا اور اس کے ساتھان کا تھوڑا سا پیٹ بھی بڑھا ہوا تھا ۔ لیکن قد لمبا ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ کا اتناپتہ نہیں چلتا تھا ۔۔ اس کے ساتھ چھاتیاں ان کی کافی بڑی بڑی تھیں گال گورے اورُسرخی مائل ، ہونٹ البتہ باریک اور پتلے پتلے تھے جو ان کے مزاج کی سختی کا پتہ دیتےتھے مجموعی طور پر اس عمر میں بھی میڈم زیبا عرف استانی جی اس عمر میں بھی بڑیخوبصورت اور گریس فُل تھیں۔ مجموعی طور پر میڈم زیبا بڑی اچھی عورت تھی پر ۔۔۔۔۔جب معاملہ پڑھائ کا آتا تھا تو پتہ نہیں کیوں ان کو جن چڑھ جاتا تھا اور وہ بہت زیادہسختی کرتی تھیں اور اس وقت ان کا غصہ دیکھنے واال ہوتا تھا لگتا ہی نہیں تھا کہ یہوہی شفیق عورت ہے جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بڑے پیار سے پڑھائ رہی تھیان کے خاوند کی باڑہ مارکیٹ راولپنڈی میں کپڑے کی دکان تھی وہ صبع دس بجےستانی جیُالکھاری: شاہ جیکام پر جاتا اور پھر رات گئے ہی واپس آیا کرتا تھا ان کا بڑا بیٹا بھی باپ کے ساتھ دکان پرہی ہوتا تھا جبکہ دوسرا بیٹا ایبٹ آباد پبلک سکول ۔۔ ایبٹ آباد میں پڑھتا تھا اور وہیںہوسٹل میں رہتا تھا اور بس ویک اینڈ پر ہی گھر آتا تھا–میڈم زیبا کا گھرانا ایک پڑھا لکھا ، علم دوست اور خوشحال گھرانا تھا ۔۔۔ ان کے ساتھمسلہ یہ تھا کہ وہ سارا دن گھر پر اکیلے پڑے بور ہوتی تھیں اس لئے اپنی بوریت کو دورکرنے کے لئے وہ بچوں کو فری ٹیوشن پڑھاتی تھیں اور اس مقصد کے لئے وہ خود محلےکے گھروں میں جا کر بچوں کو اپنے پاس النے کے لئے کہتی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھیکہ ان کو پڑھانے کا بڑا شوق تھا اسی لئے وہ ٹیوشن کی مد بچوں سے میں کوئ پائپیسہ نہ لیتی تھیں تبھی تو محلے کے سارے بچے ان سے پڑھنے آتے تھے ۔۔اور وہ پڑھاتیبھی بہت اچھا تھیں اور جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ پڑھائ کے معاملے میں وہ کسیُرو رعایت کی قائل نہ تھیں اور جہاں ضرورت پڑتی وہ خوب پھینٹی لگاتی تھیں اس سلسلےمیں محلے والوں نے ان کو فری ہینڈ دے رکھا تھا ۔۔۔ ویسے تو وہ ہمیں اکیلے ہی پڑھایاکرتی تھیں لیکن ان کی ایک دوست جو ان کی قریبی رشتے دار بھی تھیں امتحانوںکے دنوں میں بچوں کے ٹیسٹ وغیرہ لینے میں ان کی ہیلپ کرتی رہتی تھیں یا میڈمبزی ہوں تو وہ ہم کو پڑھا دیتی تھیں ورنہ عام طور پر وہ چپ چاپ میڈم زیبا کو پڑھاتےہوۓ دیکھتی رہتی تھیں میڈم زیبا کی طرح یہ بھی بہت پڑھی لکھی تھی اور ان کا گھر انکے ساتھ ہی واقعہ تھا میڈم زیبا کی طرح یہ بھی کافی خوشحال خاتون تھیں اور چونکہگھر میں پڑے پڑے بور ہوتیں تھیں اس لئے ان کا زیادہ ٹائم میڈم کے گھر ہی گزارتی تھیں۔ نام ان کا ندا تھا اور وہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے خاوند کے مرنےکے بعد دوسری شادی نہ کی تھی بلکہ اپنے اکلوتے بیٹے پر ہی ساری توجہ دی تھیجو کافی پڑھ لکھ تو گیا لیکن نوکری کی بجاۓ وہ اپنی دکان پر بیٹھتا تھا اور سہ بی صبعجاتا اور رات کو ہی واپس آتا تھا میڈم زیبا کے بر عکس ندا میم بڑی ہی سویٹ اور ہمدردخاتون تھیں وہ عمر میں زیبا میڈم سے کافی کم تھیں میرا خیال ہے وہ اس وقت 54،55 کیہوں گی لیکن ایک دوسرے کے ساتھ اُن کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے وہ ہم عمر ہوں العرضدونوں میں بڑی ہی اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی دونوں ہی بڑی پیاری اور رشتے دار ہونےکے ساتھ ساتھ بڑی گہری دوست بھی تھیں فارغ ٹائم میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑیباتیں کرتی رہیتں بس ایک فرق یہ تھا کہ میڈم زیبا کے برعکس ندا میم بڑی ہی فرینڈلی اورنرم مزاج کی عورت تھیں ہم سب نے اگر کوئ بات کہنی ہو تو ان ہی سے کہتے تھے ۔۔۔کیونکہ ان کے عالوہ میڈم زیبا کے سامنے بات کرنے کی کسی اور میں ہمت نہ تھی ۔۔۔ستانی جیُالکھاری: شاہ جیہم جب نئے نئے اس محلے میں آۓ تھے تو ایک دن ندا اور میڈم زیبا ہمیں ویل کم کرنےکے لیئے ہمارے گھر آئیں تھیں ۔۔۔۔ اور پھر باتوں باتوں میں انہوں نے امی کو بتایا تھا کہ وہمحلے کے بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھاتی ہیں ۔۔۔ مفت کا نام ُسن کر امی نے ان سے مجھے بھیپڑھانے کی درخواست کر دی تھی جو انہوں نے بخوشی منظور کر لی تھی لیکن ساتھ شرطیہ رکھی تھی کہ وہ مجھے اپنے طریقے سے پڑھائیں گی ان کی بات سمجھ کر امی نےا ن کو اجازت دے دی اور کہا کہ جو مرضی ہے کریں میرے بیٹے کو بس الئق بنا دیںاور یوں شفٹنگ کے ساتھ ہی میری ٹیوشن بھی لگ گئ تھی اور میں نے وہاں آنا جاناشروع کر دیا ۔۔۔ ان دنوں چونکہ میں بڑا آوارہ پھرا کرتا تھا اور امی میری اس حرکتسے بڑی تنگ تھیں اس لئے انہوں نے میڈموں کو خاص تاکید کی تھی کہ چاہے کچھبھی ہو جاۓ مجھے چھٹی ہر گز نہ کرنے دی جاۓ ۔۔۔۔ اور امی کی یہ بات میڈم زیبا نےِر سایہ اپنیخاص طور پر اپنے پلو سے باندھ لی تھی اور مجھے خاص طور پر اپنے زیکڑی نگرانی میں رکھا ہوا تھا ۔ اسی لیئے میں کسی بھی حال میں ٹیوشن سے چھٹی نہکر سکتا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے وہی وہانوی کا ناول گھر میں پڑھنا شروع کر دیا جو کہواقعہ ہی بڑا زبردست اور سیکسی تھا لیکن ٹیوشن کا ٹائم ہو گیا تھا اور میرا ناولچھوڑنے کو قطعا کر رہا تھا اور دوسری طرف مسلہ یہ بھی تھا کہ مجھے یہ ً دل نہناول شام کو ہر حال میں واپس کرنا تھا چنانچہ کافی سوچ و بچار کے بعد میں نے فیصلہکیا کہ ناول کو اپنے ساتھ ٹیوشن پر لے جاتا ہوں اور وہاں موقع دیکھ کر ناول کا بقایاحصہ پڑھ لوں گا یہ سوچ کر میں نے اپنے بستے میں وہ ناول رکھا اور ٹیوشن پڑھنےچال گیا ۔۔۔ یہاں میں یہ بتا دوں کہ میڈم سے ٹیوشن پڑھنے والے ہم کوئ 05 / 01 سٹوڈنٹتھے جن میں دو چار لڑکیاں بھی شامل تھیں ۔۔ جانچہ وہاں جا کر میں نے جلدی سے اپنا ہومورک ختم کر کے میڈم کو چیک بھی کروا دیا ۔۔ اور چونکہ مجھ پتہ تھا کہ میڈم کسی بھی حالمیں مجھے قبل از وقت چھٹی نہ دے گی اس لیئے میں ُچپ چاپ کمرے کے ایک کونے میںجا کر بیٹھ گیا اور جب دیکھا کہ میڈم دوسرے بچوں کے ساتھ بزی ہو گئیں ہیں تو میں نےموقع غنیمت جان کر پالن کے مطابق اپنی انگریزی کی کتاب نکالی اور اس کو کھوللیا پھر ا دھر ادھر دیکھ کر چپکے سے اس کے اندر استانی جی واال ناول رکھا اور ایکدفعہ پھر چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروفنظر آۓ سو ہر طرف سے مطمئن ہو کرمیں نے ناول پڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔ دوستو اگر آپلوگوں نے وہی وہانوی کی یہ بُک پڑھی ہے تو آپ اچھی طرح سے جانتے ہوں گے کہ یہان کا سب سے زیادہ ہاٹ )اس زمانے کے لحاظ سے( ،سیکسی اورجزبات کو برانگیخت کرنےواال ناول تھا اوپر سے اس وقت میری بالی عمر ۔۔۔ یہ سونے پر سہاگہ واال کام تھا مجھےستانی جیُالکھاری: شاہ جیِم نہانی پستاناچھی طرح سے یاد ہے اُس زمانے میں اگر ہم کہیں سے عورت کی اندایا شرم گاہ ، اور مرد کا عضو تناسل جیسا لفظ لکھا پڑھ لیتے یا ُسن لیتے تھے تواس لفظ کے سنتے ہی ہمارے سارے جسم میں سنسنی سی دوڑ جایا کرتی تھی اور لن ایکدم سر اٹھا لیا کرتا تھا ۔۔ اور اس پر متزاد یہ کہ ۔۔۔۔۔ کہ میرا مزاج لڑکپن سے ہی عاشقانہاور بڑا سیسکی تھا ۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں بڑا ڈوب کر ناول پڑھ رہا تھا اور اسٹھا رہا تھا اور ۔۔۔۔ ظاہر ہے لن صاحب ۔۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ وہکی سطر سطر سے لطف اُبھی شلوار میں تنا ہوا مست ہو کر لہرا رہا تھا اور اوپر سے میرا بڑا سا لن شلوار میںتنا کچھ زیادہ ہی دکھائ دے رہا تھا لیکن فکر کی کوئ بات نہ تھی کہ بندہ آلتی پالتیمارے )کراس بنا کر ( بیٹھا تھا اور لن کے اوپر کتاب دھری تھی لیکن سچی بات تو یہ تھیکہ میں کتاب پڑھنے میں اتنا محو تھا کہ مجھے اس بات کا احساس ہی نہ تھا کہ میں کہاں ہوں؟؟ اور میرا لن کیا کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ احساس تو تب ہوا جب اچانک میڈم زیبا نے مجھے کان سے پکڑا اور اسے اس قدرزور سے مروڑا ۔۔۔۔ کہ مجھے نانی یاد آ گئ اور میں ہڑبڑا کر اوپر دیکھنے لگا اور زیبامیڈم پر نظر پڑتے ہی میرے فرشتے کوچ کر گئے ۔۔ پھر میڈم نے مجھے کان سے پکڑٹھایا ۔۔ اسی دوران جب میڈ م زیبا مجھے کان سے پکڑ کر اوپر کو اٹھاے پکڑے اوپر کو اُرہی تھیں تو عین اسی وقت میڈم ندا نے میرے ہاتھ سے انگریزی کی کتاب کہ جس کے اندروہ سیکسی ناول بھی تھا چھین لی اور پھر جیسے ہی انہوں نے کتاب کو کھوال تو اس میں توان کی نظر سیکسی ناول پر پڑ گئ اور وہ اسے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔ اسی وقت میڈم زیبا نے وہ ناولہاتھ میں پکڑا اور ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ گئیں اور پھر وہ میری طرف ُمڑی اور بڑے ہیغصے میں بولیں ۔۔۔ اچھا تو یہ سبق پڑھا جا رہا تھا ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا منہ ندا میڈم کیطرف کیا اور بولی میں بھی کہوں یہ لڑکا اتنا محو ہو کر اپنا سبق تو ہرگز نہیں پڑھ سکتا. اس کے بعد انہوں نے میری طرف دیکھا اور بڑے طنز سے بولیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ تو یہ پڑھرہے تھے آپ ؟؟ ناول اتنا سیکسی اور ہاٹ تھا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود بھیلن کو کوئ فرق نہیں پڑا تھا اور وہ ویسے کا ویسے تنا کھڑا تھا اور جب میڈم زیبا مجھےڈانٹ پال رہی تھیں تو اس وقت بھی وہ بری طرح اکڑا کھڑا تھا اچانک میڈم ندا کی نظرمیری اٹھی ہوئ شلوار پر پڑ گئ ۔۔۔ تو وہ میری اتنی زیادہ اٹھی ہوئ شلوار کو دیکھ کرحیرت کے مارے ان کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔ اور میں نے کن اکھیوں سے دیکھا تو وہ بڑےغور سے میرے لن کو دیکھے جا رہی تھیں جو اس وقت شلوار میں تنا کھڑا رہا تھا ۔۔ میرےستانی جیُالکھاری: شاہ جیخیال میں ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دبلے پتلے )اس وقت( سے لڑکے کا اتنا بڑا بھیہو سکتا ہے تب میں نے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی اور وہ میڈم زیبا کیطرف بڑھیں اور بولیں ۔۔۔ ایک منٹ زیبا ۔۔۔۔!! لیکن میڈم اس وقت اپنے غصے کے عروج پر تھیںانہوں نے ان کی ایک نہ ُسنی اور مجھے ایک زور دار تھپڑ جڑ دیا اور غصے سےکانپتے ہوۓ بولیں ۔ ۔ ابھی اور اسی وقت یہاں سے دفعہ ہو جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میڈم کا زور دار تھپڑ کھا کر میں نے اپنا بستہ پکڑا اور ُچپ چاپ وہاں سے چال آیا ۔اور سیدھا انجم کے پاس چال گیا اور اس کو ساری صور ِت حال سے آگاہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ جیسےہی اس کو پتہ چال کہ اس کا دئیا ہوا ناول میڈم نے ضبط کر لیا ہے تو اس کے تنبدن میں آگ لگ گئ اور اس نے میری ماں بہن ایک کر دی سب سے پہلے تو وہ اس باتپر سخت ناراض ہوا کہ میں ناول لیکر وہاں گیا کیوں تھا؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب میں نے اس کو بتایاکہ یار تم نے ہی تو جلدی واپس کرنے کا بوال تھا اس لئے میں اسے و ہاں لے گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ میری بات ُسن کر وہ بوال ۔۔۔ بہن چودا ۔۔۔۔ جیسے بھی ہے مجھے میرا ناول واپس چاہئے۔۔۔ ۔ پھر بوال کیا تم کو معلوم نہیں کہ ربا ۔۔۔۔ )رب نواز جس کی الئیبریری سے ہم یہ ناول الیاکرتے تھے ( کس قدر حرامی اور مادر چود ہے ۔۔ ۔ ۔ اب اس نے مجھ پانچ سو روپے جرمانےکے لے لینے ہیں اور میرے پاس پانچ سو روپے تو کیا پھوٹی کوڑی بھی نہ ہے پھر میریطرف دیکھ کر بوال ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے تم سے تو ایک پائ کی بھی امید نہیں ہے کہ تم تو ہوہی ازلی کنگلے ۔۔۔ پھر پریشان ہو کر بوال مسلہ یہ ہے کہ لیکن اتنی بڑی رقم میں بھیکہاں سے الؤں گا ؟؟ ۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور بڑے غصے سے بوال بہن چودا۔ ۔ ۔ ۔ کل تک مجھے ہر حال میں وہ ناول چائیے ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی سخت وارننگ اورجھاڑ ُسن کر میں بہت پریشان ہوا اور منہ لٹکا کر واپس گھر آ گیا اور میں سوچ میں پڑ گیاکہ اب میں کیا کروں ؟ ۔ ۔ ۔ اور سوچنے لگا کہ اب میں کیا کروں ۔ ۔ ۔ اوپر سے مجھے یہغم بھی کھاۓ جا رہا تھا کہ اگر کتاب نہ ملی تو کیا بنے گا ؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یونہی سوچتےسوچتے اچانک مجھے ندا میم کا خیال آ گیا ۔ ۔ ۔ اور میں ان کے بارے میں سوچنے لگا کہوہ کتنی اچھی اور مہربان خاتون ہے سوچتے سوچتے میرے َمن میں آیا کہ کیوں نہ اس سلسلےمیں ندا میم سے مدد طلب کی جاۓ کیونکہ اس کیس میں انہوں نے مجھے ایک دفعہ بھی نہیںڈانٹا تھا بلکہ کن انکھیوں سے میری اٹھی ہوئ شلوار کو ہی دیکھتی جا رہی تھیں ۔ ۔ ۔ جیسےجیسے میں ندا میم کے بارے سوچتا گیا میرا حوصلہ مزید بڑھتا گیا ڈوبتے کو تنکے کاسہارا ۔ اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اس سلسلے میں ندا میم سے مدد طلب کروںگا ۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے اپنا ُرخ ندا میم کے گھر کی طرف کر لیا ۔ ۔ ۔ راستے میںخیال آیا کہ اگر وہ بھی نہ مانی تو ؟؟ ۔۔ ۔ ۔ تو میں نے یہ خیال زہن سے جھٹک دیا کہستانی جیُالکھاری: شاہ جیاگر وہ بھی نہ مانی تو پھر کچھ اور سوچیں گے ابھی تو ٹرائ کر لوں ۔ ۔ ۔ پھر زیبا میمکا بھی خیال آیا ۔ ۔ ان کا خیال آتے ہی میرے سارے بدن میں سنسنی سی پھیل گئ اور خوف کےمارے میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا ہم سب پر رعب ہی اتنا تھا کہ میں ان کےپاس جانے کا سوچ بھی نہ سکتا تھا ُرعب تو ندا میم کا بھی تھا پر اتنا نہیں جتنا کہ میڈمزیبا کا تھا پھر بھی اپنے گھر سے ان کے گھر تک جاتے جاتے میں نے کوئ پچاس دفعہ سوچااور کبھی ُرک گیا اور پھر چال گیا اسی کشمکش میں ندا میم کا گھر آ گیا اور میں ان کے دروازےکے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ دستک دوں یا نہ دوں ؟؟۔ ۔ ۔ ۔ اسی کشمکشمیں کبھی آگے جاتا اور کبھی پیچھے ہٹتا ۔ ۔ ۔ ۔ اور فیصلہ نہ کر پا رہا تھا کہ میڈم کا دروازہکھٹکھٹاؤں یا نہیں ؟ اچانک ندا میم کے گھر کا دروازہ کھال اور ایک خوش شکل سا لڑکا باہرنکال ۔ ۔ ۔ اور مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا اور بوال ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے ؟ تو میں نے کہا ۔ ۔۔ ۔۔ وہ ۔۔ وہ جی میڈم صاحبہ سے ملنا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ ایک دم چونک کر بوال ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ کہیں تمزیبا آنٹی سے ٹیوشن تو نہیں پڑھتے ؟ ۔ ۔ ۔ تو میں نے جلدی سے اثبات میں سر ہال دیا ۔ ۔ ۔ یہُسن کر وہ بوال ۔ ۔ اوکے ۔۔۔ پھر کہنے لگا ُرکو میں ممی سے پوچھ لوں اور پھر اس نے اپنا منہدروازے کے اندر کیا اور آواز دی ۔۔۔ ماما ۔۔ ایک لڑکا آپ سے ملنے آیا ہے ؟ تو مجھے اندرسے میڈم ندا کی آواز سنائ دی کون ہے بیٹا ؟ تو اس نے جواب دیا آپ کا کوئ سٹوڈنٹ ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر میڈم ندا کی آواز سنائ دی ۔ ۔ ۔سٹوڈنٹ تو ہے ۔ ۔ پر ہے کون ؟ تو وہ لڑکا مجھسے بوال ۔ ۔ یار زرا سامنے آؤ ۔ ۔ ۔ اور میں اس کے پاس چال گیا اور نے مجھے دروازےمیں کھڑا کیا اور بوال ۔۔ ماما یہ ہے وہ لڑکا ۔ ۔ ۔ ندا میم نے ایک نظر مجھے دیکھا اور چونکسی گئ لیکن بظاہر چپ رہی اور پھر اپنے بیٹے سے کہنے لگی ۔ ۔ ٹھیک ہے اسے اندرندا میم کا بیٹا تھا بوال ۔ ۔ ۔ آپ اندر جاؤ پھر وہ سامنےآنے دو ۔ ۔ ۔ اس پر وہ لڑکا جو یقیناًکھڑی اپنی ماما سے بوال ۔ ۔ ۔ ماما میں ابھی آیا ۔ ۔ ۔ تو ندا بولی تمھارا ابھی بھی ایک گھنٹےکا ہوتا ہے ٹھیک سے بتاؤ کہ کہاں جا رہے ہو اور ۔ ۔ ۔ ۔ واپسی کب تک ہو گی ؟ تو وہلڑکا بوال ماما ایک تو آپ بھی زیبا آنٹی کے ساتھ رہ رہ کر بڑی سخت ہو گئیں ہیں ۔ ۔ ۔پھرکہنے لگا ۔ ۔ ۔ماما جی ۔ ۔ ۔ میں زرا دوستوں سے ملنے جا رہا ہوں اور ایک دو گھنٹےتک لوٹ آؤں گا اور اس سے پہلے کہ میڈم ندا اس سے کچھ کہتی وہ دروازے سے غائب ہو گیا ۔۔اس کے جاتے ہی میڈم ندا میری طرف متوجہ ہوئ اور بڑے غور سے مجھےدیکھنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے اس طرح دیکھنے پر میں گھبرا گیا اور اپنا سر جھکا کر نیچےکی طرف دیکھنے لگا ۔ ۔ ۔ کچھ دیر کے بعد مجھے میڈم ندا کی سخت آواز سنائ دی ۔ ۔ ۔ تمیہاں کیا کرنے آۓ ہو؟ ان کی بات ُسن کر میں نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور بوال ۔۔ ۔ ۔وہ میڈم ۔۔۔ وہ ۔ ۔ ۔ وہ آپ کو پتہ ہے ۔۔۔ تو وہ میری بات کاٹ کر بولی مجھے تو پتہ ہے تم بتاؤ ۔ ۔ستانی جیُالکھاری: شاہ جی۔ ۔میں تمھارے منہ سے سننا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ اس پر میں نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیریاور پھر تھوک نگل کر بوال ۔ ۔ ۔ وہ میڈم آئ ایم سوری ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ تھوڑے غصے سے کہنے لگی۔ ۔ ۔ ۔ سوری ؟ پر کس بات کی تو میں نے کہا وہ میڈم میں جو کتاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ابھی اتناہی کہا تھا کہ میڈم کا پارہ ایک دم ہائ ہو گیا اور وہ غصے سے بولی ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم کوزرا شرم نہیں آئ حرام زادے اپنی عمر دیکھو اور اپنے شوق دیکھو ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد میڈمنے مجھے کافی سنائیں لیکن میں ڈھیٹ بنا ُچپ چاپ ان کی جلی کٹی باتیں سنتا رہا ۔۔۔ اور منہسے کچھ نہ بوال ۔ ۔ ۔ ۔ اس امید پر کہ جب میڈم کا غصہ ٹھنڈا ہو جاۓ گا تو دوبارہ درخواستکروں گا۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کچھ دیر بعد جب میڈم کچھ ٹھنڈی پڑی ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسےاحساس ہوا کہ اس نے میری کچھ زیادہ ہی بے عزتی کر دی ہے تو وہ تھوڑا نرم پڑ گئ اور نرملہجے میں بولی ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو بچے یہ جو تم کر رہے ٹھیک نہ ہے ۔ ۔ پھر انہوں نے میرییتیم شکل کو دیکھا اور شاید ان کے دل میں کچھ ترس آ گیا بولی ۔۔۔ہاں بتاؤ کہ تم میرے پاس کیالینے آۓ ہو ؟ میں نے جب دیکھا کہ میڈم کے دل میں کچھ رحم آ گیا ہے تو میں نے ۔ ۔ ۔ ۔کہا وہ میڈم پلیز مجھے میڈم زیبا سے معافی دال دیں ۔ میری بات ُسن کر پتہ نہیں ان کے دلمیں کیا آیا کہ وہ میری طرف دیکھ کر بولی چلو اندر چل کر بات کرتے ہیں اور مجھےاپنے ساتھ لیکر ڈرائینگ روم میں آ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور صوفے پر بٹھا کر بولی کیا پیو گے ؟ تومیں نے کہا کچھ بھی نہیں میم ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ُسن کر وہ بولی اوکے ۔ ۔ ۔ میں ابھی آئ اور پھر کچھہی دیر بعد وہ ایک جگ میں روح افزا ڈال کر لے آئ اس جگ کے ساتھ صرف ایک ہیگالس تھا تو میں نے پوچھا آپ نہیں لیں گی میڈم تو وہ بولی نہیں میرا موڈ نہیں تم پیو اور ایکگالس بھر کر مجھے دے دیا ۔ ۔ ۔ میں نے گالس اٹھایا اور آہستہ آہستہ پینے گا کچھ دیر بعد وہمجھ سے بولی ۔۔۔۔ ہاں اب بتاؤ کہ ۔ تم میرے پاس کیا لینے آۓ ہو ۔ ۔ ۔؟ میں اسی تاک میں تھا ۔ ۔۔ ۔ چنانچہمیں بڑی ہی عاجزی سے بوال ۔ ۔ ۔ وہ میڈم مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی ہے آپمجھے میڈم زیبا سے معافی دال دیں اور وہ ۔ ۔ ۔ میرا ۔ ۔ ۔ناول بھی ۔ واپسلے دیں ۔۔۔ میری بات ُسن کر اچانک اسے کچھ یاد آ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اوراس دفعہ اسی نرم ٹون میں کہنے لگی ۔ ۔ ۔ تم باز نہیں آئے نا ۔ ۔وہ باہر کیا میں نے تم سےفارسی بولی تھی ؟ اس سے پہلےکہ وہ مزید لیکچر دیتی میں نے بڑی عاجزی سے کہا میڈمپلیز ایک دفعہ میری بات تو ُسن لیں ۔۔۔۔۔ میں نے یہ بات اتنی عاجزی سی کہی تھی کہ وہ کچھسوچ میں پڑ گئیں اور بولیں ہاں بولو اور میں پھر سے اپنی وہی درخواست دھرائ تو ُسنکر بولی یہ بات تو تم پہلے ہی مجھے بتا چکے ہو پھر اس کے بعد انہوں نے میرےساتھ ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں ۔۔۔۔ اور اس دفعہ وہ اتنی شفقت سے پیش آ رہی تھیں کہمیں جو پہلے ان کی ڈانٹ سن کر خاصہ مایوس سا ہو رہا تھا پھر ہمت پکڑنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ اسستانی جیُالکھاری: شاہ جیطرح انہوں نے مجھ سے میرے، میری فیملی ، میرے دوستوں اور سکول کے حاالت پوچھےاوربڑے پیار اور دوستانہ ماحول میں باتیں کیں ان کی باتوں اور فرینڈلی ماحول کا مجھ پر یہاثر ہوا کہ میری ان کے ساتھ جھجھک کافی حد تک ختم ہو گئ اور اب میں ان سے ایزی موڈمیں باتیں کرنے لگا ۔۔۔۔ کوئ ایک گھنٹے کی گفت و شنید کے بعد وہ بولی اوکے اب تم جاؤ۔۔۔۔ اور میں ان کی بات ُسن کر اٹھا اور ۔۔۔ جانے لگا ۔۔۔۔ پھر َمن میں آیا کہ اب تو میم کافی فری ہوگئ ہے اس لیئےجاتے جاتے ان سے ایک بار پھر درخواست کرلوں چناچہ میں نے پھر اپنا رونارویا ُسن کر وہ سوچ میں پڑ گئیں اور پھر کہنے لگی ۔ ۔ دیکھو اگر تم میرے سوالوں کےٹھیک ٹھیک جواب دو گے تو شاید میں تم کو وہ ناول واپس دالنے میں کچھ مدد کر سکوں۔ ۔ ۔ تو میں نے کہا آپ پوچھیں میڈم میں سچ بولوں گا تو وہ کہنے لگی اچھا یہ بتاؤ کہ یہ ناولتمھارا اپنا ہے ؟ تو میں نے کہا جی نہیں ایک دوست کا ہے تو انہوں نے دوسرا سوال کیاکہ اس نے کہاں سے لیا؟ تو میں نے کہا ایک الئیبریری ہے تو وہ بولی کہاں ہے یہ الئیبریریتو میں نے جواب دینے میں کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو وہ بولی نہ بتاؤ میں بھی تمکو ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ان کی بات ُسن کر میری تو گانڈ ہی پھٹ گئی چنانچہ میں نے جلدی سے کہا وہ جیبظاہر تو اس کی سائیکلیں ٹھیک کرنے کی دکان ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ا س قسم کےرسالے بھی کراۓ پر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ تو وہ بولی اچھا یہ بتاؤ اس ناول کا کرایہ کتنا ہے ؟ویسے تو اس کا کرایہ دو روپے روز کا تھا پر میں نے میڈم سے جھوٹ بولتے ہوۓ کہا کہ۔ ۔ ۔ جی اس کا 4 روپے روز کا کرایہ ہوتا ہے تو وہ کہنے لگی تم لوگ کیسے دے دیتے ہو؟ تومیں نے کہا کہ جی سب چندہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ میری بات ُسن کر وہ کھلکھال کر ہنسی اور بولی ۔ ۔۔ بڑے نیک کام کے لیئے چندہ کرتے ہو آپ لوگ ۔ ۔ پھر کہنے لگی فرض کرو اگر یہ ناول تم کونہیں ملتا تو کیا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ تو میں نے کہا میڈم جی ہونا کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کتاب کی قیمت پلس ُجرمانہلے گا تو وہ بولی وہ کتنا ہو گا تو میں نے ایک دفعہ پھر جھوٹ بولتے ہوۓ کہا کہ وہ جی مل مالکر 5 4/ سو روپے ہوں گے اور مار الگ سے پڑے گی ۔ ۔ ۔ ۔ میری بات ُسن کر وہ ایک دم حیرانہو گئی اور بولی ۔ پیسوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے یہ مارے گا کس خوشی میں ؟ ۔ تو میںنے کہا کہ وہ جی اس کا ایک بھائ تھانہ کوتوالی میں حوالدار ہے یہ اس کی تڑی لگاکر مارتا ہے اور میں دیکھا کہ مار کا ُسن کر وہ کچھ نروس سی ہو گئی تھی اس لیئے میںنے اس بات کو مزید نمایاں کرنے کے لیئے ایک جعلی سی جھرجھری لی اور بوال وہ جی ایکدفعہ ہمارے ایک دوست سے اس کا ناول گم ہو گیا تھا تو اس نے پیسے الگ لیئے تھے اور مارابھی بہت تھا میری بات سن کر وہ کہنے لگی یہ تو بہت بری بات ہے لیکن تم لوگ یہ حرکتکرتے ہی کیوں ہو تو میں نے اسی عاجزی سے کہا کہ وہ جی غلطی ہو گئ آئیندہ ایسا نہ ہوگا ۔۔اور باہر کی طرف جانے کے لیئے قدم بڑھا لیا پھر جاتے جاتے واپس مڑاستانی جیُالکھاری: شاہ جیاور بوال ۔۔۔۔ میڈم ۔۔۔ وہ ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ہاں بولو ۔۔۔ تو میں نے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اسی عاجزی سے کہاوہ میڈم پلیز اس ناول کا کچھ کر دیں ۔۔۔ اور آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ مجھے روز کے 4 روپےدینے پڑیں گے ۔۔۔ میری بات ُسن کر وہ بولی اوہ ۔۔۔ ہاں وہ تو میں کروں گی لیکن یہ ۔۔۔ کل مشکلہے تم کو میڈم کے غصے کا تو پتہ ہی ہے نا ۔۔۔ تو میں نے کہا میڈم میری حالت کا تو آپ کو پتہہی ہے میں 4 روپے روز کا کرایہ نہیں دے سکتا ۔۔؟ میری بات سن کر وہ سر ہال کر بولیہاں ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تم یہ افورڈ نہیں کر سکتے پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور ۔۔۔بولی ۔۔۔۔ چلو دو دن کا کرایہ میں تم کو دے دیتی ہوں ۔۔۔ آگے کی پھر دیکھیں گے ۔ ۔ یہ کہہ کرمیڈم ندا نے اپنے سینے پر لیا ہوا دوپٹہ ایک طرف کیا اور میرے دیکھتے دیکھتے اپنا لیفٹہاتھ اپنے رائیٹ سائیڈ والے بریزئیر میں ڈاال اور اسے ٹٹولتے ہوۓ بولی ۔۔۔۔۔ ۔ کہاں گئے پیسےابھی تو یہیں رکھے تھے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ اور ۔۔۔۔ پھر اپنے ہاتھ کو بریزئیر کے اندر گھماتے گھماتےاپنی چھاتی کو قمیض سے باہر نکال لیا ۔۔۔ اور میری طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولیتی پر پڑی ۔۔۔ اُ ۔۔۔ کہاں رہ گئے پیسے ۔۔۔۔ اور میری نظر ان کی باہر نکلی ہوئ چھا ف ف ففف ۔۔۔ ان کی یہ چھاتیاں بہت بڑی ۔۔۔ موٹی موٹی ۔۔۔ اور کافی گوری سی تھی اور ان کی اِنخوبصورت چھاتیوں پر براؤن رنگ کا ۔۔۔ موٹا سا ۔۔۔۔۔ نپل بھی تھا ۔۔۔۔ ان کی اتنی بڑی چھاتی ۔۔ہی ُگ اور اس پر براؤن سا ۔۔۔ نپل ۔۔۔۔ دیکھ کر میرے تو ہوش م ہو گئے اور میرے اوپر کا سانساوپر اور نیچے کا نیچے ۔۔۔۔۔ اور منہ کھلے کا کھال رہ گیا اور ۔۔۔ میں کوشش کے باوجود بھی انکی اس خوبصورت چھاتی سے اپنی نظریں نہ ہٹا سکا ۔۔۔ اور پھر مجھے پتہ بھی نہ چال اورمیری شلوار میں ایک تمبو سا تن گیا ۔۔۔ حاالنکہ موقع بھی نہ تھا پھر بھی نہ جانے کیسے۔۔۔۔ میری شلوار میں ۔۔۔ میرا بڑا سا لنڈ ۔۔۔۔۔ اکڑ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ لیکن یقین کریں ۔۔۔ مجھے اسبات کا کوئ احساس نہ تھا میں تو بس ان کا گورا ۔۔۔ چٹا ۔۔۔ اور موٹا سا مما دیکھنے میں مگنتھا ۔ ۔ ۔ انہوں نے کوئ تیس چالیس سکینڈ تک اپنی ننگی چھاتی برا سے باہر رکھی اور بظاہربریزئیر کو ٹٹول ٹٹول کر پیسے ڈھونڈتی رہیں ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گہری نظروں سے میریطرف بھی دیکھے جا رہیں تھیں ۔۔۔ لیکن شاید وہ مجھے کم اور میرے لن کو زیادہ گھور رہیںتھیں پر میں اس سے بے نیاز۔۔۔ ان کی گوری موٹی اور ننگی چھاتی کو دیکھنے کی لزت لےرہا تھا ۔ ۔ ۔ پھر انہوں نے اپنی یہ چھاتی واپس اپنے بریزئیر میں ڈال لی اور ۔ ۔ ۔ بولی ۔۔۔میرا خیال ہے پیسے دوسری سائیڈ پر ہیں اور پھر اپنا دوسرا ہاتھ دوسری سائیڈ والے بریزئیر میںڈاال اور کچھ دیر تک اپنا ہاتھ وہاں گھماتی رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظریں مسلسل میریشلوار میں تنے ہوۓ میرے لنڈ پر تھیں ۔۔۔ پر ۔۔۔۔ قسم لے لیں جو مجھے اپنے لن کے کھڑےہونے کا زرا بھی احساس تھا ۔۔۔ میری تو نظریں میڈم کی دوسری چھاتی پر گڑھی ہوئیں تھیں کہکب وہ باہر نکلے اور میں اس کو دیکھ کر اپنی آنکھیں سینک سکوں ۔۔۔۔۔ مجھے زیادہ دیر انتظارستانی جیُالکھاری: شاہ جینہیں کرنا پڑا ۔ ۔ ۔ ۔ جلد ہی پہلے کی طرح میڈم نے اپنی اس خوبصورت چھاتی کو بریزئیر سےباہر نکال اور ۔۔۔ ان کی یہ چھاتی دیکھ کر بھی میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔۔ پہلی چھاتی کی طرح یہ بھی فنٹاسٹک تھی ۔۔۔۔ اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس دفعہ انکی چھاتی کا براؤن سا نپل اکڑا ہوا تھا ) شاید میرا لن دیکھ کر میڈم کو بھی ہوشیاری آ گئ تھی(کچھ دیر تک میڈم نے مجھے اپنی اس چھاتی کا بھی نظارہ لینے دیا پھر انہوں نے بریزئیرمیں اپنا ہاتھ ادھر ادھر گھمایا اور 055 کا ایک نیا نوٹ باہر نکال لیا اور اس کے بعد اپنیچھاتی کو واپس بریزئیر میں ڈال کر بولی یہ لو ۔۔۔ اس کو دو دن کا کرایہ دے دینا ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ اسزمانے میں میرے لئے سو کا نوٹ بہت بڑا نوٹ ہوتا تھا اس لئے میں نے میڈم سے کہا کہ میڈم۔۔۔ جی ۔۔۔ اتنا بڑا نوٹ ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اس وقت میں اس کا چینج کہاں سے الؤں گا ؟ تو وہ بولی تم کوکس نے کہا کہ تم ابھی مجھے بقایا واپس کرو ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ پھر تھوڑا سوچتے ہوۓ بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ تمکو چھٹی کب ہوتی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ تو میں نے ۔ ۔۔ جواب دیا کہ میڈم ۔۔۔ دو بجے ۔۔۔ تو وہ بولینہیں دو بجے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ڈیڑھ بجے تو مجھے ایک ضروری کام سے کہیں جانا ہے ۔۔۔۔۔ پھر بولی کہ تم ۔۔۔ ایسا کرو کہ ۔۔ کل آدھی چھٹی ساری کر لینا اور اسے دو دن کا کرایہ دےکر باقی پیسے مجھے دے جانا ۔۔َ۔ اور اس کے ساتھ ہی ندا میڈم نے میرے لن کو گھورتےہوۓ مجھے باہر جانے کا اشارہ کیا اور میں باہر آ گیا لیکن میری آنکھوں کے سامنے ابھیبھی ان کی ننگی چھاتیاں گھوم رہیں تھیں اور ۔۔۔۔ اور نیچے شلوار میں ایک تمبو سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔ ۔ ۔ اور میں اپنی آنکھوں میں ان کی ننگی چھاتیوں کی تصویر سجاۓ چال جا رہا تھاان کے تصور کے ساتھ ہی کچھ دیر بعد مجھے اپنا لن پکڑ کر دبانے کی حاجت محسوس ہوئاور بے اختیار میرا ہاتھ اپنے لن کی طرف چال گیا اور میں نے جیسے ہی ہاتھ نیچے کیا تو لنہی میں نے ادھرکھڑا ہوا محسوس ہوا تب مجھے احساس ہوا کہ میں کہاں ہوں ۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فوراًادھر دیکھا ۔ ۔ ایک تو رات کا ٹائم تھا دوسرا خوش قسمتی سے گلی بھی خالی تھی سو میںنے سائیڈ پر ہو کر لن کو اپنی شلوار کے نیفے میں اڑوس لیا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ گھرچال گیا اور جب بستر پر لیٹا تو ایک دفعہ پھر میری آنکھوں کے سامنے میڈم کی ننگی چھاتیاں آگئیں اور اس کے ساتھ ہی میرا لن بھی پھر سے اکڑ گیا اور میں کوشش کے باوجود بھی سو نہسکا ۔۔۔۔۔ اور کروٹیں بدلتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن لن کی اکڑاہٹ ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی تھی پھرٹھا اور سیدھا لیٹرین میں چال گیا اور میڈم کی ننگی چھاتیوں کا تصور کرمجبور ہو کر میں اُکے ُمٹھ مار دی ۔۔۔۔۔۔۔ جس سے کچھ سکون مال اور میں واپس آ کر بستر پر لیٹا اور پھر ۔۔ میڈمکے تصور میں ُگ جانے کب آنکھ لگ گئ۔۔۔
 

55,937

Members

319,052

Threads

2,673,351

Posts
Newest Member
Back
Top