Xdreams - Desi Adult Community

There are many great features that are not available to guests at Xdreams, Login for limitless access, participate in daily challenges and earn money with us.

Incest وطن کا سپاہی

OP
Story Maker
Member

0

0%

Status

Offline

Posts

164

Likes

94

Rep

0

Bits

0

3

Years of Service

LEVEL 1
70 XP
یونہی وقت گزرتا گیا، دعوتِ ولیمہ کا فنکشن بھی ہوگیا، عفت نے دلہن کی بجائے گھر کی بہو کی حیثیت سے دعوت میں شرکت کی کیونکہ شوہر کے بنا دلہن بن کر ولیمہ کی دعوت میں بیٹھنا کسی طور بھی مناسب نہیں تھا جبکہ عمیر اور اسکی دلہن نادیہ نے دلہا دلن کی حیثیت سے ولیمہ اٹینڈ کیا۔

3 دن گزر چکے تھے مگر دانش کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ فوزیہ اپنے شوہر کے ساتھ واپس اپنے گھر جا چکی تھی جبکہ دانش کی چھوٹی بہن پنکی دانش کی غیر موجودگی میں عفت کے ساتھ ہی اسکے کمرے میں سوتی تھی۔ عفت اور پنکی دونوں رات کو نماز پڑھ کر دانش کی سلامتی کی خصوصی دعائیں مانگتی اور اسکے بعد بستر پر لیٹ کر لمبی لمبی باتیں کرتیں۔ پنکی اپنی عفت بھابھی کو حوصلہ دیتی اور اسے اپنے بھائی کی بہادری کے قصے بھی سناتی۔

عفت کی شادی کو اب پورے 7 دن ہوچکے تھے۔ مگر ابھی تک دانش کا کچھ پتا نہیں چلا تھا۔ عفت کے گھر والے ، عفت خود اور دانش کے گھر والے اب دانش کو لیکر کافی پریشان تھے۔ کیونکہ دانش کے آفس سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا تھا۔ نہ ہی ابھی تک دانش نے گھر رابطہ کیا تحا۔ کرتا بھی کیسے وہ تو کرنل وشال کی قید میں تھا جہاں سے کبھی کوئی قیدی بچ کر نہیں نکل سکا تھا۔

عمیر کو بھی اپنے بھائی کی فکر تھی یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنا ہنی مون کا پلان بھی کینسل کر دیا تھا جو شادی کے 3 دن بعد کا تھا۔ اس پلان کے مطابق شادی کے 3دن بعد عمیر اور اسکی بیوی نادیہ اور دانش اور عفت نے ملکر مری جانے کا پوگرام بنایا تھا۔ مگر دانش کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ پوگرام کینسل ہوگیا تھا۔

اس دوران عفت 3 دن کے لیے اپنے میکے سے بھی ہوآئی تھی۔ دوسری طرف عمیر کی بیوی نادیہ سے اب صبر نہیں ہورہا تھا۔ اس نے عمیر پر زور ڈالنا شروع کیا کہ اب انہیں ہنی مون کے لیے جانا ہی چاہیے۔ پہلے پہل تو عمیر نے اسے ڈانٹ دیا مگر پھر آخر کار اسے ماننا ہی پڑا۔ طے یہ پایا کہ عمیر، اسکی بیوی نادیہ، عفت اور عمیر کی بہن پنکی یہ چاروں لوگ مری جائیں گے۔ جب عفت کو اس پروگرام کا پتہ چلا تو اسنے فورا ہی منع کر دیا کہ اول تو وہ دانش کے بغیر نہیں جائے گی، دوسری بات یہ عمیر کا ہنی مون ٹرپ ہے لہذا اس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہی جائے۔ اگر دانش ہوتے تو بات اور تھی مگر یوں اس طرح دانش کے بغیر ہنی مون ٹرپ پر عفت کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں۔ مگر دانش کی عدم موجودگی سے پنکی کو جو موقع ملا تھا مری کی سیر کرنے کا وہ اسکو ضائع نہیں کرنا لہذا وہ عفت کی منتیں کرنے لگ گئی کہ بھابھی اگر آپ نہیں جائیں گی تو عمیر بھائی مجھے بھی نہیں لیکر جائیں گے۔ اور اگر آپ جائیں گی تو ساتھ میں بھی جا سکتی ہوں۔

عفت نے پنکی کو سمجھانا چاہا کہ دانش کی غیر موجودگی میں اسکا بالکل دل نہیں کر رہا وہ ایسے نہیں جا سکتی۔ اگر دانش کی کوئی خیر خبر ہی مل جاتی تو شاید وہ چلی بھی جاتی۔ مگر اب نہیں جا سکتی۔ لیکن پنکی کہاں ٹلنے والی تھی۔ حالانکہ پنکی عمر میں عفت سے ایک سال بڑی تھی مگر رشتے میں عفت نہ صرف پنکی سے بڑی تھی بلکہ عمیر سے بھی بڑی تھی۔ لہذا پنکی عفت کے سامنے ایسے ہی ضد کر نے لگی جیسے وہ اپنے بڑے بھائی دانش کے سامنے بچی بن کر ضد کرتی تھی۔ گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے پنکی میں بچپنہ بھی کافی تھا۔ عفت نے پنکی کو یہ بھی سمجھانا چاہا کہ عمیر اپنی بیوی کے ساتھ ہنی مون پر جانا چاہتا ہے ہم وہاں کباب میں ہڈی ہونگے تو پنکی فورا بولی کہ ہم علیحدہ روم میں رہیں گے وہ دونوں علیحدہ میں اب اور کوئی بہانہ نہیں بس آپ چلنے کی تیاری کریں۔ آخر کار عفت کو پنکی کی ضد کے آگے ہار ماننی پڑی۔ شادی کے 10 دن بعد عمیر، نادیہ ، عفت اور پنکی ہنی مون ٹرپ پر مری جا رہے تھے ۔ نادیہ اور پنکی تو بہت خوش تھے ، جبکہ عفت کا بالکل بھی دل نہیں لگ رہا تھا دانش کے بغیر دوسری طرف عمیر بھی قدرے شرمندہ تھا اپنی بھابھی کے سامنے ، اسکو احساس تھا کہ دانش کی غیر موجودگی میں اسے اپنا ہنی مون ٹرپ
پلان نہیں کرنا چاہیے تھا مگر کیا کرتا بیوی کی ضد کے سامنے اسکی ایک نہیں چلی تھی۔

==================================================
 
OP
Story Maker
Member

0

0%

Status

Offline

Posts

164

Likes

94

Rep

0

Bits

0

3

Years of Service

LEVEL 1
70 XP
==========================================

دانش کی آنکھ کھلی تو اب کی بار وہ پہلے سے نسبتا چھوٹے کمرے میں قید تھا۔ اور اس بار نائلون کی رسی کی بجائے اسکے ہاتھ لوہے کے راڈز کے ساتھ جکڑے ہوئے تھے۔ دانش کو ایک دیوار کے ساتھ سیدھا کھڑا کیا گیا تھا اسکے ہاتھ سر سے اوپر دیوار کے ساتھ لگے ہوئے لوہے کے راڈز کے ساتھ جکڑے ہوئے تھے جبکہ پاوں بھی اسی طرح کے لوہے کے گول راڈز کے ساتھ جکڑے گئے تھے۔ اب کی بار دانش اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا تھا۔ اند راڈز کو دیکھ کر دانش نے پریشان ہونے کی بجائے کچھ سکھ کا سانس لیا۔ کیونکہ نائیلون کی رسی سے اپنے ہاتھ چھڑوانا اسکے لیے ممکن نہیں تھا کیونکہ اس کمرے میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی کہ جس سے وہ اپنی رسی کاٹ سکتا ۔ جبکہ لوہے کے ان راڈز کو وہ کسی بھی لوہے کی پتلی پن سے با آسانی کھول سکتا تھا۔ اب مسئلہ صرف ایسی پن کا حصول تھا۔

دانش ابھی کمرے کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ کمرے کی لائٹس آن ہوگئیں۔ یہ ایک مکمل ٹارچر سیل تھا جس میں مختلف قسم کے آلات موجود تھے۔ ان آلات کو دانش نے پہلے بھی دیکھ رکھا تھا کیونکہ وہ بھی آخر پاکستان کی خفیہ تنظیم کا ایجینٹ تھا۔ کمرے کی لائٹس آن ہونے کے بعد کمرے کا دروازہ کھلا جو لوہے کی بھاری چادر سے بنا ہوا تھا اور بِنا کوڈ کے اسکو کھولنا ممکن نہ تھا۔ دروازے سے اس بار 2 مرد اور ایک لڑکی اندر آئے۔ دونوں مردوں کو چھوڑ کر میجر دانش نے لڑکی کا سرتا پا جائزہ لینا شروع کردیا۔ یہ لڑکی تھی ہی ایسی کہ جو بھی ایک بار دیکھ لے وہ اپنی نظریں ہٹانا بھول جائے۔ 22 سالہ سونیہا کو راء نے خاص طور پر ہائیر کیا تھا۔ سونیہا کی خاص بات اسکا جسم اور اسکے اتار چڑھاو تھے جو کسی بھی مرد کو دیوانہ بنا سکتے تھے۔ سونیہا کا استعمال اکثر دشمن سے مختلف راز اگلوانے کے لیے کیا جاتا تھا۔ سونیہا کسی بھی دشمن کو اپنے بستر پر لیجا کر اسے خوب مزہ دیتی تھی ، لیکن اس مزے کے ساتھ ساتھ اسکو خوب تڑپاتی بھی تھی اور باتوں ہی باتوں میں اس سے مختلف قسم کے راز اگلوا کر اپنے اعلی حکام تک پہنچاتی تھی۔

22 سال کی گرم جوانی میں اسکے سینے پر 36 سائز کے پہاڑ جیسے ممے سر اٹھائے کھڑے تھے اور 34 سائز کے باہر کو نکلے ہوئے اسکے چوتڑ کسی بھی بے جان لن میں جان ڈالنے کے لیے کافی تھے۔ 30 کی کمر کے ساتھ سونیہا ایک پٹاخہ لڑکی تھی ۔ سونیہا اب تک 3 سری لنکن، 2 بنگالی اور 5 پاکستانی فوجیوں کو اپنے بستر پر لیجا کر ان سے مختلف راز اگلوا چکی تھی۔ اور کرنل وشال اور راء کے دوسرے اعلی حکام سونیہا کی پرفارمنس سے بہت خوش تھے۔ سونیہا نے اس وقت ایک ٹائٹ پینٹ پہن رکھی تھی جس میں اسکے گوشت سے بھرے ہوئے پٹ اور 34 کے چوتڑ بہت سیکسی لگ رہے تھے۔ اوپر اس نے ایک چھوٹی سی شرٹ پہن رکھی تھی جو محض اسکے 36 سائز کے مموں کو چھپانے کا کام کر رہی تھی۔ پیٹ کا زیادہ تر حصہ ننگا تھا اسی طرح کمر کا پچھلا حصہ بھی زیادہ تر ننگا ہی تھا۔ کندھوں تک چھوٹے اور ہلکے بالوں کو اس نے پونی کی شکل دے کر سر کے پیچھے باندھ رکھا تھا۔

سونیہا نے جب میجر دانش کو یوں اپنا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا تو اس نے ایک سیکسی سمائل پاس کی اور دل ہی دل میں بولی کہ یہ بھی گیا کام سے۔ سونیہا کے ساتھ آئے 2 مردوں نے میجر دانش کو مخاطت کیا اور کرخت لہجے میں بولے کہ تم کون ہو اور کرنل وشال تک کیسے پہنچے؟؟ میجر دانش نے سونیہا کے مموں سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال شاہراہِ فیصل پر 130 کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے ہنڈا اکارڈ چلا رہا تھا اسی لیے میں اسکا پیچھا کرنے لگا اور جب مجھے پتا چلا کہ یہ دشمن ملک کا کرنل ہے تو میں نے اسکو پکڑنے کے لیے اسکی بوٹ تک اسکا پیچھا کیا۔ میجر دانش نے ایک ہی سانس میں جواب دیا۔ یہ جواب وہ تب سے سوچ بیٹھا تھا جب پہلے والے کمرے میں اس سے پوچھ گچھ شروع ہوئی تھی۔ میجر دانش نے جیسے ہی جواب ختم کیا ایک شخص نے دیوار کے ساتھ لگا ہوا لیور اوپر اٹھا دیا۔ لیور اوپر اٹھاتے ہی میجر دانش کو اپنا جسم کٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اسکے ہاتھوں اور پاوں میں سویاں چبھنے لگیں۔ یہ تکلیف نا قابلِ برداشت تھی۔ میجر کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور رنگ پھیکا پڑنے لگا۔
 
OP
Story Maker
Member

0

0%

Status

Offline

Posts

164

Likes

94

Rep

0

Bits

0

3

Years of Service

LEVEL 1
70 XP
کچھ دیر کے بعد اس شخص نے لیور واپس نیچے کیا تو میجر دانش کو ایک جھٹکا لگا اور پھر آہستہ آہستہ اسکے جسم کو سکون ملنے لگا۔ اب کی بار سونیہا میجر دانش کے قریب آئی اور اسکے چہرے پر اپنے ہاتھ پھیرنے لگی، میجر دانش اپنی ساری تکلیف بھول کر سونیہا کو ایسے دیکھنے لگا جیسے ابھی آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی چدائی کر ڈالے گا۔ سونیہا بڑے ہی پیار سے بولی دیکھ میری جان یہ دونوں کمینے بہت ظالم ہیں۔ اگر تم انکو سچ نہیں بتاو گے تو یہ تمہاری بوٹی بوٹی کر دیں گے۔ لہذا بہتری اسی میں ہے کہ ان لوگوں کو سچ بتا دو۔ یہ کہ کر سونیہا پیچھے ہوگئی مگر میجر دانش کی نظریں اسکے مموں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ شارٹ بلاوز میں اسکے مموں کا ابھار بہت ہی سیکسی لگ رہا تھا۔

اب کی بار پھر سے ایک کرخت آواز آئی سچ سچ بتاو تم کون ہو اور کرنل وشال کا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟ میجر دانش کی زبان ایک بار پھر چل پڑی: میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال شاہراۃی فیصل پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار پھر میجر دانش کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا اور اسکو اپنے ہاتھ اور پاوں میں وہی سوئیاں چبھتی محسوس ہوئیں اور اسکا رنگ زرد ہوگیا۔ کچھ دیر بعد لیور کو نیچے کیا گیا تو میجر کی حالت کچھ سنبھلی۔ اب کی بار پھر سے سونیہا میجر کے قریب آئی اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتی ہوئی بولی بتادے میر ی جان، ان لوگوں کو سب کچھ سچ سچ بتا دے۔ ورنہ یہ تجھے نہیں چھوڑیں گے۔ سونیہا کے خاموش ہوتے ہی میجر دانش نے اپنے ہونٹوں سے سونیہا کے رسیلے ہونٹ چوس ڈالے۔ میجر نے ایسی کمال کی پپی لی تھی سونیہا کی کہ ایک لمحے کے لیے تو وہ بھول ہی گئی کہ وہ دشمن ملک کے خفیہ ایجینٹ کے سامنے کھڑی ہے۔ میجر دانش نے سونیہا کے ہونٹوں کو چھوڑا اور بولا جانِ من تمہاری اس گرم جوانی کی قسم جو کہ رہا ہوں سچ کہ رہا ہوں۔ اگر انکو میری بات پر یقین نہیں آتا تو یہ بتا دیں انکو کیا جواب چاہیے۔ جو یہ کہیں گے میں وہی لفظ بہ لفظ دہرا دوں گا۔

اس پر دوسرا شخص بولا مان جا کہ تو آئی ایس آئی کا ایجینٹ ہے۔ میجر دانش نے کہا ہاں میں آئی ایس آئی کا ایجینٹ ہوں۔ اس پر دوسرا شخص بولا اور تجھے میجر جنرل اشفاق نے کرنل وشال کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ دانش بولا ہاں مجھے میجر جنرل اشفاق نے کرنل وشال کا پیچھا کرنے بھیجا تھا۔ پہلا شخص غریا اور بولا اب بتا کہ کیوں کر رہا تھا تو کرنل وشال کا پیچھا؟؟؟ اس پر میجر دانش بولا تم ہی بتاو نہ کہ میں نے کیا کہنا ہے۔ جیسا تم کہو گے ویسے ہی میں دہراوں گا۔ ایک زناٹے دار تھپڑ سے میجر دانش کا گال لال ہوگیا اور وہ شخص پھر سے غرایا حرامزادے۔۔۔۔ سچ سچ بول تو کون ہے اور کرنل وشال کا پیچھا کیوں کر رہا تھا۔

میں ٹریفک کانسٹیبل افتخار ہوں تمہارا کرنل وشال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بار پھر میجر دانش کا رنگ زرد ہوگیا۔ وہی کرنٹ اسکے جسم میں دوبارہ سے چھوڑا گیا تھا۔ اب کی بار میجر کو اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی اور اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بے ہوش ہونے سے پہلے جو آخری چیز میجر دانش کی آنکھوں کے سامنے تھی وہ سونیہا کے ممے تھے ۔

==================================================
 

54,719

Members

287,826

Threads

2,551,672

Posts
Newest Member
Back
Top